ماں نے کمال کر دکھایا

 ❤❤❤🫶🏻 ❤❤❤ ایک تابعی بزرگ تھے حضرت ابو عبدالرحمن فروخؒ صاحب تاریح بغداد نے لکھا ہے کہ اپنے بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ترکستان میں جہاد ہو رہاہے میں چلا جاٶ بیوی کہنے لگی میں حاملہ ہو فرمانے لگے تو اور تیرا حمل اللہ کے سپرد یہ تیس ہزار درہم ہے یہ تو رکھ لے اور مجھے اجازت دے میں اللہ کے راستے میں جاٶ فروحؒ نکلے ایک ماہ ایک سال دو سال تین سال کوئی خبر نہیں فروح کہاں گئے پیچھے  بیٹا پیدا ہوا پروان چڑھا جوان ہوا بیوی کی جوانی ڈھل رہی اپنے حاوند کے انتظار میں دیواروں کے ساتھ جوانی گزر رہی ہے سیاہی سفیدی میں بدل گئی رونق جھریوں میں بدل گئی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی وہ پھر بھی انتظار کرتی رہی کہ کبھی تو آئے گا تیس برس گزر گئے لیکن فروخ کا کوئی پتہ نہیں کبھی خبر آتی کہ زندہ ہے کبھی خبر آتی کہ شہید ہوگئے ایک رات لوگ عشاہ پڑھ کے جا چکے کہ ایک بڑے میاں ہتھیار سجائے ہوئے مدینے میں داحل ہوئے اپنے حیالات میں غلطاں وپیشماں پریشان و حیران یہ کون ہے یہ وہ جوان ہے جو جوانی میں نکلا تھا کالے داڑھی کے ساتھ آج لوٹا ہے سفید داڑھی کے ساتھ اس سوچ میں ہے کہ بیوی زندہ بھی ہے کہ مر گئی حاملہ تھی کی...

توہین رسالت

توہین رسالتۖ! مولانا فضل الرحمن کا درست موقف نوید مسعود ہاشمی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس کا ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ ''مذہبی حوالے سے،توہین رسالت یا توہین مذہب کے مقدمات کے کے حوالے سے جب عدالتوں نے فیصلے سنا دیئے ہیں، لوگوں کو سزائیں سنا دی گئی ہیں تو ان مقدمات کے متعلق کمیشن بنانا،ان تجاویز پر بات کرنا ملک میں نئے نئے ہنگامے کھڑے کرنے والی بات ہے''۔یہ گفتگو مولانا فضل الرحمن نے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ۖ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث زیر حراست گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے مذکورہ گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن کے تناظر میں فرمائی ہے۔اس وقت سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث تقریباً ساڑھے چار سو گستاخوں کے خلاف مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ان میں سے اب تک 40گستاخوں کے خلاف مقدمات کی سماعت مکمل ہو چکی ہے اور عدالتیں ان 40گستاخوں میں سے 38گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت جبکہ دیگر دو گستاخوں کو عمر قید کی سزائیں سنا چکی ہیں۔باقی 80 فیصد زیر حراست گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے ٹرائل بھی تقریباً اختتامی مراحل پر ہیں۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ گستاخوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کسی ایک عدالت میں کسی ایک فاضل جج کے روبرو نہیں ہو رہی بلکہ ملک کی مختلف عدالتیں اور مختلف فاضل ججز صاحبان مذکورہ گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کی سماعت کررہے ہیں۔یہ ججز صاحبان نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی آپس میں ہم خیال۔ان ججز صاحبان پر یہ الزام بھی عائد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کمپرومائزڈ ہیں۔اس لئے کہ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی گروہ کسی ایک جج کو مینج کر لے لیکن یہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ تمام ججز کو ہی مینج کر لیا گیا ہو۔اب یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے مذکورہ گستاخوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ان کے سہولت کاروں کی جانب سے مذکورہ گستاخوں کو ٹریپ کرکے توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسانے کا جو ''جھوٹا بیانیہ''پیش کیا جا رہا ہے،اسے وہ اب تک کسی بھی مقدمے میں ٹرائل کورٹ کے سامنے کیوں درست ثابت نہ کر سکے؟یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مذکورہ گستاخوں میں سے کوئی ایک گستاخ بھی اب تک اپنے آپ کو ٹرائل کورٹ کے روبرو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اگر مذکورہ گستاخوں کے پاس اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لئے یا مذکورہ گستاخوں کے حق میں گزشتہ ایک سال سے پیش کئے جانے والے بیانیہ کے حق میں کوئی ایک ثبوت بھی موجود ہوتا تو اب تک کوئی ایک گستاخ تو ملک کی کسی بھی عدالت سے ضرور بے گناہ ثابت ہو چکا ہوتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔لہٰذا مولانا فضل الرحمن کا مذکورہ موقف مبنی بر حق اس لئے ہے کہ اگر مذکورہ گستاخوں کے پاس اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت ہے،اگر مذکورہ گستاخوں کے سہولت کاروں کا مذکورہ گستاخوں کو ٹریپ کرکے توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسانے کا بیانیہ درست ہے تو پھر وہ اسے ٹرائل کورٹس کے سامنے ثابت کریں۔ کمیشن کے قیام کی کیا ضرورت ہے؟اس معاملے میں تو زیادہ شفافیت ٹرائل کورٹس میں چلنے والی کاروائی میں ہی ہو سکتی ہے،نہ کہ کسی کمیشن میں۔اس لئے کہ ہر ٹرائل کورٹ کا جج اپنی جگہ آزاد اور خود مختار ہے۔جبکہ اگر اس معاملے میں کوئی کمیشن بنتا ہے تو اس کے ارکان نہ صرف یہ کہ پانچ سے زائد نہیں ہوں گے بلکہ ان کی آزادی اور خود مختاری بھی ٹرائل کورٹس کے ججز صاحبان کی نسبت سوالیہ نشان ہو گی۔اس لئے کہ ملک بھر کی عدالتوں کے مختلف ججز صاحبان کو تو مینج کرنا ممکن نہیں لیکن کسی کمیشن کے چند ارکان کو مینج کرنا ضرور ممکن ہے۔فرض کریں کہ اگر مقدس ہستیوں کے گستاخ اور ان کے سہولت کار ملک بھر کے مختلف ٹرائل کورٹس کے مختلف فاضل ججز صاحبان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر ان کا مخالف فریق کسی کمیشن کے چند ریٹائرڈ ارکان پر کیسے اعتماد کر سکتا ہے؟مذکورہ گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے مذکورہ گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن کی اب تک ہونے والی سماعت کو دیکھنے کے بعد بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گستاخوں کے سہولت کار گزشتہ ایک سال سے جو پروپیگنڈہ کررہے ہیں،اسے درست ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ایک ثبوت بھی نہیں ہے۔یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ مذکورہ گستاخوں کو کسی لڑکی نے ٹریپ کرکے مذکورہ مقدمات میں پھنسایا۔یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ مذکورہ مقدمات کا مقصد گستاخوں کی فیملیز کو بلیک میل کرکے ان سے مالی فوائد حاصل کرنا ہے۔ فاضل عدالت نے مذکورہ گستاخوں کے رشتہ دار پٹیشنرز کے وکلا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دلائل کے دوران پانچ ایسے مقدمات عدالت کے سامنے پیش کریں گے کہ جن سے یہ ثابت ہو کہ مذکورہ گستاخ ملزمان کو ٹریپ کرکے توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔جو لوگ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری مذکورہ پٹیشن کی لائیو سماعت دیکھ رہے ہیں،وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پٹیشنرز کے وکلا 23 دن تک دلائل کے دوران اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ایسا مقدمہ بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کر سکے کہ جس سے ٹریپنگ کے ذریعے کسی ایک گستاخ کو بھی توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسانے اور پھر اس مقدمے کی بنیاد پر کسی ایک ملزم کی فیملی سے بھی مالی فوائد حاصل کرنے کا تقاضا کرنے کا الزام درست ثابت ہوتا ہو۔لہٰذا اس صورتحال میں تو ویسے بھی مذکورہ مقدمات کے متعلق انکوائری کمیشن کے قیام کا کوئی جواز نہیں ہے۔اگر مذکورہ گستاخوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے کوئی ثبوت ہے تو وہ اسے لے کر ٹرائل کورٹ کے سامنے جائیں۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302،انسداد منشیات ایکٹ کی دفعہ 9سی اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوتا ہے۔پھر بھی ان مقدمات میں نامزد ملزمان اگر اپنا دفاع قانون کے مطابق صرف ٹرائل کورٹ کے سامنے ہی کر سکتے ہیں تو پھر ایک لمحے کے لئے اس سے قطع نظر کہ توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات میں نامزد ملزمان کے الزامات درست ہیں یا غلط،سوال یہ ہے کہ انہیں اپنے دفاع کے کئے قانون کے خلاف ٹرائل کورٹ کے بجائے انکوائری کمیشن کا فورم کیسے دیا جاسکتا ہے؟یہ خصوصی رعایت صرف توہین مذہب و توہین رسالت کے مرتکب ملزمان کے لئے ہی کیوں؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس