ماں نے کمال کر دکھایا

 ❤❤❤🫶🏻 ❤❤❤ ایک تابعی بزرگ تھے حضرت ابو عبدالرحمن فروخؒ صاحب تاریح بغداد نے لکھا ہے کہ اپنے بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ترکستان میں جہاد ہو رہاہے میں چلا جاٶ بیوی کہنے لگی میں حاملہ ہو فرمانے لگے تو اور تیرا حمل اللہ کے سپرد یہ تیس ہزار درہم ہے یہ تو رکھ لے اور مجھے اجازت دے میں اللہ کے راستے میں جاٶ فروحؒ نکلے ایک ماہ ایک سال دو سال تین سال کوئی خبر نہیں فروح کہاں گئے پیچھے  بیٹا پیدا ہوا پروان چڑھا جوان ہوا بیوی کی جوانی ڈھل رہی اپنے حاوند کے انتظار میں دیواروں کے ساتھ جوانی گزر رہی ہے سیاہی سفیدی میں بدل گئی رونق جھریوں میں بدل گئی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی وہ پھر بھی انتظار کرتی رہی کہ کبھی تو آئے گا تیس برس گزر گئے لیکن فروخ کا کوئی پتہ نہیں کبھی خبر آتی کہ زندہ ہے کبھی خبر آتی کہ شہید ہوگئے ایک رات لوگ عشاہ پڑھ کے جا چکے کہ ایک بڑے میاں ہتھیار سجائے ہوئے مدینے میں داحل ہوئے اپنے حیالات میں غلطاں وپیشماں پریشان و حیران یہ کون ہے یہ وہ جوان ہے جو جوانی میں نکلا تھا کالے داڑھی کے ساتھ آج لوٹا ہے سفید داڑھی کے ساتھ اس سوچ میں ہے کہ بیوی زندہ بھی ہے کہ مر گئی حاملہ تھی کی...

❣️لباس کے احکام❣️

 ❣️لباس کے احکام❣️


سوال

" لباس کے سلسلہ میں اصل حکم یہ ہے کہ مرد کا لباس عورتوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو اور نہ عورتوں کا لباس مرد کے لباس کے مشابہ ہو۔ نیز ایسا لباس نہ ہو جو غیر مسلموں کا شعار شمار ہوتا ہو۔ اسی طرح لباس کا ساتر ہونا (ستر چھپانے والا ہونا) اور چست نہ ہونا شرعاً ضروری ہے، پس صورتِ مسئولہ میں ایسے کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے مشابہ نہ ہوں مردوں کے لیے پہننا شرعاً جائز ہے۔"


مذکورہ فتوی کا حوالہ مطلوب ہے؟


جواب

 


 لباس کے سلسلے میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوالِ مبارکہ ہیں ان کو محدثینِ کرام نے جمع کیا ہے اور فقہاءِ کرام نے ان ہی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مرد اور عورت کے لباس اور مسلم و غیر مسلم کے لباس کے احکام بتلائے ہیں ۔ان احادیثِ مبارکہ میں غور کرنے سے چند اَحکام معلوم ہوتے ہیں:


1- لباس کا سب سے اولین مقصد سترکو چھپانا ہے، اسی لیے اگر لباس ایسا ہو کہ وہ سترپوشی کا کام نہیں دیتا ، خواہ ناقص لباس ہو یا لباس تو پورا ہو لیکن اتنا تنگ اور چست لباس ہو جس سے اعضاء مستورہ کی حکایت اوران کی تصویر سامنے آتی ہو تو ایسا لباس خواہ مرد کا ہو یا عورت کا ، سب کے لیے ناجائز ہے ۔


اسي وجه سے الله تعالي نے انسانوں كو مخاطب كركے فرمايا هے:


{يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ} [الأعراف:26]


ترجمه: اے اولاد آدم كي هم نے اتاري تم پر پوشاك جو ڈھانكے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی؛ تاکہ وہ لوگ غور کریں۔


اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:


"یمتنّ تبارك و تعالى على عباده بما جعل لهم من اللباس و الريش، فاللباس المذكور هاهنا لستر العورات -و هي السوءات- و الرياش و الريش: هو ما يتجمل به ظاهرًا، فالأول من الضروريات، و الريش من التكملات و الزيادات."


ترجمہ:اللہ تبارک وتعالی (اس آیتِ مبارکہ میں) اپنے بندوں پر اپنا احسان بیان کر رہے ہیں،بوجہ لباس اور آرائش کے کپڑوں کے جو اُن کو عطا فرمائے ہیں، اور لباس جس کا یہاں پر بیان ہے، اس کے دو مقصد ہیں: قابلِ شرم اعضاء (یعنی شرم گاہوں) کو چھپانا اور "ریاش" یعنی ظاہری زینت و جمال، پہلا مقصد (ستر چھپانا) ضروریات میں سے ہے اور دوسرا اضافی زینت کے لیے۔"


2- اسی طرح مرد اور عورت یا کافر اور مسلمان کے درمیان ظاہری فرق لباس سے حاصل ہوتا ہے اور اگر ایک دوسرے کا لباس پہناجائے تو مشابہت کی وجہ سے امتیاز ختم ہونے کا اندیشہ ہے؛ اس لیے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:


"لعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَ قَالَ: أخْرِجُوْهمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ."


(صحيح البخاري، رقم الحدیث: 5547)


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایاکہ: تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔


3-جب ممانعت کی بنیادی علت مشابہت ہے اور اور جہاں یہ علت نہیں ہوگی وہاں ممانعت بھی نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسی کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے کپڑوں کے مشابہ نہ ہوں (اور ان میں کفار کی مشابہت بھی نہ ہو)، ایسے کپڑوں کا مردوں کے لیے پہننا جائز ہوگا۔


صحیح بخاری کیحدیثہے:


"عنْ عائِشَةَ أنَّ النبيَّ صلَّى فِي خمِيصةٍ لَها أعْلاَمٌ فَنَظَرَ إِلَى أعْلاَمِها نَظْرَةً فَلَمَّا انْصَرَف، قالَ: اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أبي جَهْمٍ، وأتُونِي بأنْبِجانِيَّةِ أبي جَهْمٍ، فإِنَّهَا ألْهَتْنِي آنِفاً عنْ صَلاَتي."


 ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دھاری دار چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش ونگار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان نقش و نگار کودیکھا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئےتو فرمایا: اسے لے جا کر ابوجہم کوواپس کردو اور ان سے (بجائے اس کے) سادی چادر لاؤ، اس نے مجھے میری نماز سے ابھی غافل کردیا ۔


اس کی شرح میں علامہ عینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:


"ذكر مَا يستنبط مِنْهُ من الْأَحْكَام فِيهِ: جَوَاز لبس الثَّوْب الْمعلم وَ جَوَاز الصَّلَاة فِيهِ. وَ فِيه: أَن اشْتِغَال الْفِكر الْيَسِير فِي الصَّلَاة غير قَادِح فِيهَا، وَهُوَ مجمع عَلَيْهِ ..."


اس حدیث سے جو احکام مستنبط ہوئے ہیں: ان (میں ایک یہ کہ) نقش ونگار والے کپڑوں کا پہننا ہے اور ان میں نماز کا درست ہونا ہے اور یہ کہ نماز سے ہٹ کر معمولی سے مشغولیت نماز میں مضر نہیں اور اسی پر اتفاق ہے ۔

style="font-size: medium;">

اس کے علاوہ دیگر احادیث سے لباس کے بارے میں مزید درج ذیل احکام بھی ثابت ہیں:


4- مرد شلوار،پائجامہ یا تہبند وغیرہ اتنا نیچے نہ پہنیں کہ ٹخنے یا ٹخنوں کا کچھ حصہ چھپ جائے اور نہ ہی خواتین شلوار وغیرہ اتنی اونچی پہنیں کہ ان کے ٹخنے ظاہر ہوجائیں۔


5- لباس میں سادگی ہو، تصنع، بناوٹ یا نمائش مقصود نہ ہو۔


6- مال دار شخص نہ تو فاخرانہ لباس پہنے اور نہ ہی ایسا لباس پہنے کہ اس سے مفلسی جھلکتی ہو۔


7- اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی لباس کا اہتمام ہونا چاہیے۔


8- مرد کے لیے خالص ریشم (یا جس کپڑے کا بانا ریشم کا ہو) پہننا حرام ہے۔


9- مرد کے لیے خالص سرخ یا زعفرانی رنگ مکروہ ہے ، البتہ سرخ کے ساتھ کسی اور رنگ کی بھی آمیزش ہو تو جائز ہے۔


10) لباس صاف ستھرا ہو، نیز مردوں کے لیے سفید رنگ پسندیدہ ہے ۔


شرح ابن بطال لصحیح البخاری (9/140):


"قال الطبرى: فيه من الفقه أنه لايجوز للرجال التشبه بالنساء في اللباس و الزينة التي هي للنساء خاصة، و لايجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة. فمما يحرم على الرجال لبسه مما هو من لباس النساء: البراقع و القالائد و المخانق و الأسورة و الخلاخل، و مما لايحل له التشبه بهنّ من الأفعال التي هنّ بها مخصوصات فانخناث في الأجسام، و التأنيث في الكلام. و مما يحرم على المرأة لبسه مما هو من لباس الرجال: النعال و الرقاق التي هي نعال الحد و المشي بها في محافل الرجال، و الأردية و الطيالسة على نحو لبس الرجال لها في محافل الرجال و شبه ذلك من لباس الرجال، و لايحلّ لها التشبه بالرجال من الأفعال في إعطائها نفسها مما أمرت بلبسه من القلائد و القرط و الخلاخل و السورة، و نحو ذلك مما ليس للرجل لبسه، و ترك تغيير اليدي و الأرجل من الخضاب الذي أمرن بتغييرها به."


 مرقاۃ المفاتیح (7/2782):


"وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ» " رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.


(4347- وَعَنْهُ) : أَيْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ (قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ) : أَيْ مَنْ شَبَّهَ نَفْسَهُ بِالْكُفَّارِ مَثَلًا فِي اللِّبَاسِ وَغَيْرِهِ، أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ الْفُجَّارِ أَوْ بِأَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الْأَبْرَارِ. (فَهُوَ مِنْهُمْ) : أَيْ فِي الْإِثْمِ وَالْخَيْرِ. قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا عَامٌّ فِي الْخَلْقِ وَالْخُلُقِ وَالشِّعَارِ، وَلِمَا كَانَ الشِّعَارُ أَظْهَرُ فِي التَّشَبُّهِ ذُكِرَ فِي هَذَا الْبَابِ."

❣️لباس کے اسلامی آداب و مسائل❣️ 


۔عَنْ رَافِعِ بْنِ يَزِيدَ الثَّقَفِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ الشَّيْطَانَ يُحِبُّ الْحُمْرَةَ فَإِيَّاكُمْ وَالْحُمْرَةَ وَكُلَّ ثَوْبٍ ذِي شُهْرَةٍ۔(شعب الایمان :5915)(طبرانی اوسط :7708)


نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :شیطان سُرخ رنگ کو پسند کرتا ہے ، پس تم سرخ رنگ اور ہر طرح کے شہرت والے لِباس سے بچو 


لِباسِ شہرت کی صورتیں:

لِباسِ شہرت کی مُختلف صورتیں ہیں :

ایسا لِباس جس کا پہننا ہی سرے سے جائز نہ ہو ۔جیسے برہنہ کپڑے ، باریک اور چست کپڑے وغیرہ ۔

ایسا لِباس جس کا پہننا تو جائز ہو لیکن اُس کے پہننے سے مقصود فخر و غرور اور نام کمانا ہو۔

ایسا لِباس جس کے ذریعہ فقراء پر اپنی برتری کا اظہار اور اُن کی دل شکنی مقصود ہو ۔

ایسا لِباس جس کو مسخرہ کے طور پر پہنا جائے ، یعنی لوگوں کو اُس لِباس کے ذریعہ ہنسانا مقصود ہو ۔

ایسا لِباس جس کے ذریعہ اپنے زُہد ، عمل اور تقویٰ کا اِظہار مقصود ہو ۔جیسے پیوند لگے ہلکے درجے کاکپڑا اِس غرض سے پہناجائے کہ لوگ صوفی اور زاہد کہیں گے ۔ 

ایسا لِباس جو کسی منصب اور مقام کی علامت ہو اورانسان نااہل ہونے کے باوجود اُس لِباس کو اِس لئے اختیار کرے تاکہ لوگ اُسے اُس مقام و منصب کا حامل سمجھیں ۔جیسے :جاہل ہونے کے باوجود فقہاء کا لِباس پہننا ، عامی ہونے کے باوجود رئیس اور سید جیسا لِباس پہننا ۔(مرقاۃ المفاتیح :72782)

لِباسِ شہرت کی وعیدیں :

نبی کریمﷺنے اِیسے لِباس کے بارے میں بڑی سخت وعیدیں ذکر فرمائی ہیں : چند وعیدیں ملاحظہ فرمائیں:

آگ کا لِباس :حضرت عبد اللہ بن عمر ﷟فرماتے ہیں :جس نے شہرت کی چادر پہنی یا شہرت کا کپڑا پہنا اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن آگ کا لباس پہنائیں گے ۔قَالَ ابْنُ عُمَرَ:مَنْ لَبِسَ رِدَاءَ شُهْرَةٍ، أَوْ ثَوْبَ شُهْرَةٍ أَلْبَسَهُ اللَّهُ نَارًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔(ابن ابی شیبہ :25266)

❣️درزی کا عورتوں کا غیر شرعی لباس سینا❣️


سوال

ایک شخص درزی ہے اور لیڈیز کے سوٹ سیتا ہے توکہااس کےلیے عورتوں کے کپڑے سینا شرعا جاِئز ہے؟دوسری بات یہ کہ آج کل جو فینسی کپڑے ہیں جو شرعا درست نہیں ہیں جیسے جن کے بازو آدھے ہوتے ہیں یا کلائی سے اوپر ہوتے ہیں یا بازوجھالی کے ہوتے ہیں،توایسے کپڑے سینا اور اس پر اجرت لینا کیسا ہے؟

ہمارایہ کسب ہےاگر ان کے انتخاب کے مطابق نہیں سیتے تو گاہک نہیں آتےاور کوئی دوسرا کاروبار بھی اس کے علاوہ نہیں ہے۔


جواب

               شرعی نقطہ نظر سے درزی کا پیشہ اختیار کرنا اور اس کوکمائی کا ذریعہ بناناجائز ہے۔مرد درزی کےلیےزنانہ لباس سینے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ۔شریعت نے کسی خاص طرزلباس کی تخصیص نہیں کی ہے، بلکہ مردوں اور عورتوں کے لباس کے لیے چند شرائط بتلائے ہیں جس میں ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ وہ لباس ساتر ہو یعنی جسم کو چھپانے والا ہو لہذا وہ لباس جو چھوٹا ہونے کی وجہ سے ساتر نہ ہو اوراس سے اعضاء نظر آتے ہوں مثلا عورتوں کے لیے نصف آستین والی قمیص یا وہ لباس جو باریک ہواورشفاف ہونے کی وجہ سے ساتر نہ ہو یعنی اس میں سے جسم کی کھال اور رنگت نظر آتی ہو یا وہ لباس چست ہونے کی وجہ سے غیر ساتر ہویعنی لباس اتنا تنگ ہو کہ جسم کی ساخت و جسامت اس سے معلوم ہوتی ہو تو اس لباس کا پہننا جائز نہیں اور ایسے لباس کاسینا بھی کراہت سےخالی نہیں۔


             صورت مسئولہ میں مرد درزی کے لیے زنانہ سوٹ سینا جائز ہے۔البتہ ایسے کپڑے جن کے بازوآدھے ہوں یا کلائی سے اوپر ہوں یا جن کے بازو جھالر کے ہوں تو ایسے کپڑے سینا مکروہ ہے۔اس لیے اس کی بجائےکوئی دوسرا روزگار تلاش کرنا چاہیے۔تاہم کپڑے سی لینے کے بعد ان کی اجرت لینا حلال ہوگا۔


 


فإذا ثبت کراہة لبسہا للتختم ثبت کراہة بیعہا وصیغہا لما فیہ من الإعانة علی ما لا یجوز وکل ما أدیٰ إلی ما لا یجوز لا یجوز۔ (الدرالمختار علی صدر ردالمحتار، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في المس، ج:9، ص:556)


أمره إنسان أن يتخذ له خفا على زي المجوسي أو الفسقة أو خياطا أمره إنسان أن يخيط له ثوبا على زي الفساق يكره له أن يفعل ذلك(مجمع الانھر، کتاب الکراھیة، فصل فی الکسب، ج:2،ص:530)


(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره(الدرالمختار علی صدر ردالمحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء،ج:۹، ص:560)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس