ماں نے کمال کر دکھایا

 ❤❤❤🫶🏻 ❤❤❤ ایک تابعی بزرگ تھے حضرت ابو عبدالرحمن فروخؒ صاحب تاریح بغداد نے لکھا ہے کہ اپنے بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ترکستان میں جہاد ہو رہاہے میں چلا جاٶ بیوی کہنے لگی میں حاملہ ہو فرمانے لگے تو اور تیرا حمل اللہ کے سپرد یہ تیس ہزار درہم ہے یہ تو رکھ لے اور مجھے اجازت دے میں اللہ کے راستے میں جاٶ فروحؒ نکلے ایک ماہ ایک سال دو سال تین سال کوئی خبر نہیں فروح کہاں گئے پیچھے  بیٹا پیدا ہوا پروان چڑھا جوان ہوا بیوی کی جوانی ڈھل رہی اپنے حاوند کے انتظار میں دیواروں کے ساتھ جوانی گزر رہی ہے سیاہی سفیدی میں بدل گئی رونق جھریوں میں بدل گئی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی وہ پھر بھی انتظار کرتی رہی کہ کبھی تو آئے گا تیس برس گزر گئے لیکن فروخ کا کوئی پتہ نہیں کبھی خبر آتی کہ زندہ ہے کبھی خبر آتی کہ شہید ہوگئے ایک رات لوگ عشاہ پڑھ کے جا چکے کہ ایک بڑے میاں ہتھیار سجائے ہوئے مدینے میں داحل ہوئے اپنے حیالات میں غلطاں وپیشماں پریشان و حیران یہ کون ہے یہ وہ جوان ہے جو جوانی میں نکلا تھا کالے داڑھی کے ساتھ آج لوٹا ہے سفید داڑھی کے ساتھ اس سوچ میں ہے کہ بیوی زندہ بھی ہے کہ مر گئی حاملہ تھی کی...

پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے گاڑی وغیرہ قسطوں پر مہنگی خرید کر بیچنا

پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے گاڑی وغیرہ قسطوں پر مہنگی خرید کر بیچنا

سوال

مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، میں کوئی گاڑی یا کوئی زمین قسطوں پر مہنگی لے کر سستی بیچ سکتا ہوں؟ 


جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائل کو پیسوں کی ضرورت ہے اور وہ کسی سے قرضہ طلب کرتاہے، لیکن بلاسود قرض دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس بنا پر وہ شخص سائل کو قرضہ دینے کے بجائے مہنگے داموں قسطوں پرکوئی گاڑی یا زمین وغیرہ خریدنے کو کہتا ہے؛ تاکہ سائل بازار میں نقد بیچ کر پیسے حاصل کرکے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے، مارکیٹ میں یہ طریقہ سود خوروں کی ایجاد ہے ،اصطلاحِ شریعت میں اس خرید وفروخت کو ’’بیع عینہ‘‘ کہتے ہیں جوکہ مکروہ اور قابلِ ترک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے۔


لیکن اگر سائل کسی سے قرض طلب کرنے کے بجائے از خود کسی سے کوئی چیز گاڑی /زمین وغیرہ قسطوں پر مہنگے داموں پر خرید کر اسے بازار میں کسی اور کے ہاتھ فروخت کرکےنقد پیسے حاصل کر کے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہے تو یہ جائز ہے۔


فتاوی شامی میں ہے: 

قوله: أمر كفيله ببيع العينة) بكسر العين المهملة وهي السلف، يقال باعه بعينة: أي نسيئة مغرب.:


وفي المصباح وقيل لهذا البيع عينة؛ لأن مشتري السلعة إلى أجل يأخذ بدلها عينا أي نقدا حاضرا اهـ، أي قال الأصيل للكفيل اشتر من الناس نوعا من الأقمشة ثم بعه فما ربحه البائع منك وخسرته أنت فعلي فيأتي إلى تاجر فيطلب منه القرض ويطلب التاجر منه الربح ويخاف من الربا فيبيعه التاجر ثوبا يساوي عشرة مثلا بخمسة عشر نسيئة فيبيعه هو في السوق بعشرة فيحصل له العشرة ويجب عليه للبائع خمسة عشر إلى أجل."


(کتاب الکفالۃ،مطلب فی بیع العینۃ،ج5،ص325،ط؛سعید)


وفيه ايضاً:


"ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اهـ، وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود."


(کتاب الکفالۃ،مطلب فی بیع العینۃ،ج5،ص326،ط؛سعید)



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس