مکرہ (مجبور ) کی طلاق
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اگر مجبور سے مراد صرف اصرار ،ترکِ تعلق کی دھمکی ،گالم گلوچ وغیرہ یعنی کوئی ایسی صورت ہے جس میں جان سے مارنا،یا اعضاء کے تلف کی کوئی صورت نہ ہو تو ایسا شخص شرعاً مجبور شمار نہیں ہوتا ایسا شخص قولًایا تحریراً طلاق دے دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
اور اگر مجبور سے مراد ایسا شخص ہے جسے طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی ،یا کسی عضو کے ضائع کرنے کی دھمکی دی گئی ہو اور دھمکی دینے والے موقع پراپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے پر قادر بھی ہوں،تو ایسی صورتِ حال میں اگر یہ مجبور( مکرہ) شخص تحریری طلاق دے دے تو اس کی تحریر کا اعتبار نہیں ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر اس صورتِ حال میں اس نے زبانی طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" .(35/5)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية". (236/3ط: سعید)
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں