ماں نے کمال کر دکھایا

 ❤❤❤🫶🏻 ❤❤❤ ایک تابعی بزرگ تھے حضرت ابو عبدالرحمن فروخؒ صاحب تاریح بغداد نے لکھا ہے کہ اپنے بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ترکستان میں جہاد ہو رہاہے میں چلا جاٶ بیوی کہنے لگی میں حاملہ ہو فرمانے لگے تو اور تیرا حمل اللہ کے سپرد یہ تیس ہزار درہم ہے یہ تو رکھ لے اور مجھے اجازت دے میں اللہ کے راستے میں جاٶ فروحؒ نکلے ایک ماہ ایک سال دو سال تین سال کوئی خبر نہیں فروح کہاں گئے پیچھے  بیٹا پیدا ہوا پروان چڑھا جوان ہوا بیوی کی جوانی ڈھل رہی اپنے حاوند کے انتظار میں دیواروں کے ساتھ جوانی گزر رہی ہے سیاہی سفیدی میں بدل گئی رونق جھریوں میں بدل گئی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی وہ پھر بھی انتظار کرتی رہی کہ کبھی تو آئے گا تیس برس گزر گئے لیکن فروخ کا کوئی پتہ نہیں کبھی خبر آتی کہ زندہ ہے کبھی خبر آتی کہ شہید ہوگئے ایک رات لوگ عشاہ پڑھ کے جا چکے کہ ایک بڑے میاں ہتھیار سجائے ہوئے مدینے میں داحل ہوئے اپنے حیالات میں غلطاں وپیشماں پریشان و حیران یہ کون ہے یہ وہ جوان ہے جو جوانی میں نکلا تھا کالے داڑھی کے ساتھ آج لوٹا ہے سفید داڑھی کے ساتھ اس سوچ میں ہے کہ بیوی زندہ بھی ہے کہ مر گئی حاملہ تھی کی...

فرض نمازوں کے بعد دعا

 سوال

فرض نمازوں کے بعد دعاکے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ،بعض دعامانگتے ہیں، بعض نہیں مانگتے، اس بارے میں ہمیں کیاکرنا چاہیے؟ دُعا فرض نماز کے بعد مانگنی چاہیے یا نہیں؟

جواب

فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں، فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور آں حضرت ﷺ سے بھی دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

’’المعجم الکبیر ‘‘ میں علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»". (المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

 اسی طرح ’’ کنزالعمال‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود ... اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔


حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے، جب وہ اپنے ہاتھوں کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے کرو، ہاتھوں کی پشت سے نہ کرو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔


دعا میں ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے کبھی کبھار امام جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ’’ فیض الباری‘‘ میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنت مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

البتہ جن فرض نمازوں (ظہر، مغرب اور عشاء) کے بعد سنن مؤکدہ ہیں ان فرض نمازوں کے بعد مختصر دعا پر اکتفا کر کے سنن و نوافل میں مشغول ہو جانا زیادہ بہتر ہے، فرض نماز کے بعد جو دعائیں یا اذکار احادیث میں وارد ہیں وہ اذکار پڑھے جائیں یا مختصر دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لمبی دعا مانگنی ہو یا طویل اذکار کرنے ہوں تو سنن مؤکدہ ادا کرنے کے بعد کریں۔ اور جن فرض نمازوں کے بعد سنن نہیں ہیں، جیسے فجر اور عصر ان کے بعد طویل دعا مانگنے اور طویل ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فرض نمازوں کے بعد مطلق دعا مانگنے میں تو کسی بھی ذی قدر صاحبِ علم کا اختلاف نہیں ہے، البتہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس میں جو تفصیل ہے وہ سابقہ سطور میں بیان کردی گئی ہے، مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ،اور شیخ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی ؒ کے رسالے "التحفة المرغوبة في أفضلیة الدعاء بعد المکتوبة" کا مطالعہ فرمائیں

فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت (پہلی قسط)


جامعہ کے قدیم استاذ اور شعبہ تخصص فی الفقہ و تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے نگران حضرت مولانا مفتی محمد ولی درویش v (المتوفی:۱۹۹۹ئ) کی اپنے علمی وطبعی ذوق کے سبب دیرینہ خواہش تھی کہ سندھ کے امام شاہ ولی اللہ، محدث ومفسر ومصنف حضرت العلامہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی سندھی v (المتوفی:۱۱۷۴ھ) کا عربی میں تصنیف کردہ رسالہ ’’التحفۃ المرغوبۃ فی أفضلیۃ الدعاء بعد المکتوبۃ‘‘ جو ’’ثلاث رسائل فی استحباب الدعائ‘‘ نامی مجموعہ کا پہلا رسالہ ہے، اور شیخ عبدالفتاح ابوغدہ v(المتوفی ۱۴۱۷ھ) نے اس کا اختصار کیا ہے، اس کو اردو کے قالب میں ڈھالا جائے، تاکہ علماء کے علاوہ عوام بھی اس سے مستفید ہوں۔ حضرتؒ کی اسی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے اس کا ترجمہ ہدیۂ قارئین ہے۔


حمدوصلاۃ کے بعد اپنے غنی رب کی رحمت کا محتاج محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹھوی(اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہرآن اس کا معین ومددگار ہو)کہتاہے کہ:مجھ سے فرض نماز کے بعد دعاکے بارے میں پوچھاگیا کہ یہ سنت ہے یا نہیں؟ اور جن فرض نمازوں کے بعد سنن مؤکدہ ہوتی ہیں، ان میں سنتِ مؤکدہ سے پہلے دعاکرنا افضل ہے یابعد میں؟ تومیں نے جواب دیا کہ:فرض نماز کے بعد دعا ’’سنت مستحبہ ‘‘ہے،اس کاچھوڑنا اچھا نہیں ہے، خاص کر امام کے حق میں۔اور جس طرح سنت مؤکدہ سے پہلے دعاکرنا جائز ہے، اسی طرح اس کے بعد بھی جائز ہے۔اور بہتر یہ ہے کہ دعاسنت سے پہلے کی جائے اگر وہ لمبی نہ ہو۔ بعض معاصر علماء کرام نے تو میری رائے کی موافقت کی اور بعض حضرات نے بعض کتبِ فقہ کی روایات کو بنیاد بناکر میری مخالفت کی۔لہٰذامیں نے یہ رسالہ لکھا،اور اس میں مَیں نے وہ احادیث نبویہ l اورفقہ کی معتمد روایات ذکر کی ہیں جو سنت سے پہلے دعاکے مکروہ نہ ہونے بلکہ اس کے افضل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس رسالہ کو میں نے جمعرات کی صبح ۱۹؍ صفر المظفر۱۱۶۸ھ کو شروع کیا،اوراس کا نام ’’التحفۃ المرغوبۃ فی أفضلیۃ الدعاء بعد المکتوبۃ‘‘ رکھا۔اس رسالہ کی بنیاد دوابواب اور ایک خاتمہ پر رکھی ہے۔ پہلاباب اس بارے میں ہے کہ نفسِ دعا فرض نمازوں کے بعد سنت مستحبہ ہے۔ اوردوسراباب اس بارے میں ہے کہ فرض نماز کے بعد سنت سے پہلے دعاکرناافضل ہے،بلکہ سنت کے بعد دعاکرنے کی بجائے سنت سے پہلے دعا کرناافضل ہے، بشرطیکہ دعاطویل نہ ہو۔ اور خاتمہ میں ان روایات کوذکر کیاہے جن سے مخالفین نے استدلال کیاہے (اوران کا جواب بھی دیا ہے) اور یہ (خاتمہ)اس رسالہ کا حاصل(اور اس کے سبب)کابیان ہے۔ پہلاباب’’نفسِ دعا فرض نماز کے بعد سنت مستحبہ ہے‘‘ ’’وہ احادیث مبارکہ جوفرض نمازکے بعد نفسِ دعاکے سنت مستحبہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں‘‘ ۱:…امام ترمذی vنے اپنی سنن اورامام نسائیv نے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘میں حضرت ابو امامہ باہلی qسے روایت کی ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ a سے پوچھاگیا: کون سی دعازیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ a نے فرمایا:رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد (مانگی جانے والی)۔(۱)امام ترمذیv فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن ہے۔ امام عبدالحق دہلویv مشکوٰۃ کی فارسی شرح میں فرماتے ہیں کہ ’’دبرالصلوات المکتوبات‘‘ کی ظاہری عبارت سے مراد یہ ہے کہ دعافرض نمازکے متصل بعد ہو۔(۲) ۲:…امام بخاری vاپنی کتاب ’’التاریخ الأوسط‘‘ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ q سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ a ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ دعافرماتے تھے۔(۳) ۳:…امام مسلم v نے حضرت ثوبان q سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ a نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار کہتے،اور یہ دعافرماتے:’’أَللّٰھُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ‘‘۔(۴) اس حدیث کے راوی امام اوزاعیv سے پوچھاگیا کہ استغفارکیسے پڑھا جائے؟ توانہوں نے فرمایاکہ:یوں کہو:’’أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ‘‘۔ ۴:…امام بخاریv اور امام مسلمv اپنی صحیحین،امام ابو دائود vاورامام نسائی v اپنی سنن میں حضرت مغیرہ بن شعبہq سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہa سلام پھیرکر نماز سے فارغ ہوتے توفرماتے :’’لَاإِلٰہَ إِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ،لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، أَللّٰھُمَّ لَامَانِعَ لِمَاأَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِیَ لِمَامَنَعْتَ وَلَایَنْفَعُ ذَاالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘۔(۵) امام بخاریvنے ’’کتاب الاعتصام ‘‘میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے کہ:’’ إنہ a کان یقول:ھذہ الکلمات دبر کل صلاۃ‘‘۔ یعنی آپ m مذکورہ(بالا)کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھتے تھے۔(۶)ا ور ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘میں لفظ ’’مکتوبۃ‘‘کے اضافہ کے ساتھ ذکر کیاہے کہ: ’’دبر کل صلاۃ مکتوبۃ‘‘ یعنی ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات ذکر فرماتے تھے ۔تویہ (کلام) اپنے عموم کی وجہ سے ان فرض نمازوں کو بھی شامل ہے جن کے بعدسنتیں (پڑھی جاتی) ہیں اور ان کو بھی جن کے بعد سنتیں نہیں ہیں۔(۷) ۵:…امام مسلمv اپنی صحیح، امام ابودائود v اور امام نسائیv اپنی سنن میں حضرت عبداللہ بن زبیر r سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرr)ہر نماز کے سلام پھیرنے کے بعد یہ کلمات پڑھاکرتے تھے :’’لاَإِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلاَّبِاللّٰہِ، لَانَعْبُدُإِلاَّإِیَّاہُ، لَہٗ النِّعْمَۃُ وَلَہٗ الْفَضْلُ وَلَہٗ الثَّنَائُ الْحَسَنُ، لاَإِلٰہَ إِلاَّاللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ، وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔‘‘(۸) حضرت عبداللہ بن زبیرr فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ aہر نماز کے بعد ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے۔ ۶:… امام بخاری vاور امام مسلمv حضرت عبداللہ بن عباس r سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ a کے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ فرض نماز سے فراغت کے بعدمعمولی بلند آواز سے ذکر ہوتاتھا، حضرت ابن عباسr فرماتے ہیں کہ: جب میں اس ذکر کی آواز سنتا تو مجھے معلوم ہوجاتاکہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں۔(۹)ا ور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ ہم رسول اللہa کی نماز کااختتام آپa کے (سلام پھیرنے کے بعد)اللہ اکبر کہنے سے معلوم کرتے تھے۔ ۷:…امام بخاریvنے اپنی صحیح کی کتاب الجہاد کے شروع میں حضرت سعد بن ابی وقاصrسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ a ہر نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگاکرتے :’’أَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبُنِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ أَرُدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبَرِ‘‘۔(۱۰) ۸:…اما م ابوبکر ابن ابی شیبہ v اپنی مصنَّف میں حضرت عبداللہ بن مسعودqسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ a فرمایا کرتے تھے کہ: جب تم میں سے کوئی نماز سے فارغ ہوجائے تو یہ کہے:’’أَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ مَاعَلِمْتُ مِنْہُ وَمَالَمْ أَعْلَمْ وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہٖ مَاعَلِمْتُ مِنْہُ وَمَالَمْ أَعْلَمْ، أَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاسَأَلَکَ بِہٖ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ، وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَااسْتَعَاذَ مِنْہُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ، رَبَّنَاآتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَا إِنََّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا۔۔۔۔۔۔ وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ، وَلَاتُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِنَّکَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادَ‘‘۔(۱۱) ۹:…امام ابودائودؒ،امام نسائیؒ نے اپنی سنن اورامام ابونعیمw نے حلیہ میں حضرت معاذ بن جبلq سے نقل کیاہے کہ نبی کریمa نے ان سے فرمایا:اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان کلمات کوہر نماز کے بعد پڑھنا مت چھوڑنا:’’أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘۔(۱۲) ابونعیم vنے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے:’’أَعِنِّیْ عَلٰی تِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ وَکَثْرَۃِ ذِکْرِکَ‘‘۔ ۱۰:…امام احمد v اپنی مسندمیں حضرت عبدالرحمن بن غنمqسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہaنے فرمایا: جو شخص فجر اور مغرب (کی نماز)کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پیشتر اور پائوں موڑنے سے پہلے (یعنی جس طرح ’’التحیات‘‘ کے لیے بیٹھتاہے، اسی ہیئت کے ساتھ) ان کلمات کو دس مرتبہ پڑھے:’’لاَإِلٰہَ إِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ بِیَدِہٖ الْخَیْرُ، یُحْیِیٖ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ‘‘تواس کے لیے ہر ایک مرتبہ (پڑھنے )کے بدلے میںدس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،اور اس کے دس گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں،اور یہ کلمات اس کے لیے ہر بری چیز اور شیطان مردود سے امان (کاباعث)بن جاتے ہیں، (یعنی نہ تواس پر کسی دینی ودنیاوی آفت وبلا کا اثر ہوتاہے اور نہ شیطان مردوداس پر حاوی ہوتاہے)اور شرک کے علاوہ کوئی گناہ(توفیقِ استغفار اور رحمت پروردگار کی وجہ سے)اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتا،(یعنی اگر شرک میں مبتلاہوجائے گا اور شرک پر موت آئی، أعاذنا اللّٰہ منہ، توپھر اس عظیم عمل کی وجہ سے مغفرت وبخشش نہیں ہوگی)۔(۱۳)اور وہ شخص عمل کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بہتر ہوگا،سوائے اس شخص کے جواس سے زیادہ افضل عمل کرے گا،(یعنی اس شخص سے وہ افضل ہوسکتاہے جس نے یہ کلمات اس سے زیادہ کہے ہوں)۔ ۱۱:…امام احمد vاورامام ترمذیvنے حضرت عبدالرحمن بن عائش ؒکے حوالہ سے بعض صحابہ کرام s،حضرت معاذ بن جبل اورحضرت عبداللہ بن عباسr سے اور وہ نبی کریم a سے روایت کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے محمد! جب تم نماز پڑھ چکو تویوں کہو:’’أَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ، وَأَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَإِذَا أَرَدتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، أَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ إِلٰی حُبِّکَ‘‘۔ ۱۲:…امام ابن السنیv نے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘میں اورابوالشیخ v نے حضرت انسq سے روایت کی ہے کہ نبی کریم a نے فرمایاکہ:ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر کہو:’’أَللّٰھُمَّ إلٰہِیْ إِلٰہَ إِبْرَاھِیْمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ، وَإِلٰہَ جِبْرَائِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَإِسْرَافِیْلَ أَسْأَلُکَ أَنْ تَسْتَجِیْبَ دَعْوَتِیْ، فَإِنِّیْ مُضْطَرٌّ، وَتَعْصِمَنِیْ فِیْ دِیْنِیْ، فَإِنِّیْ مُبْتَلًی، وَتَنَالَنِیْ بِرَحْمَتِکَ، فَإِنِّیْ مُذْنِبٌ، وَتَنْفِیْ عَنِّیْ الْفَقْرَ فَإِنِّیْ مُتَمَسْکِنٌ‘‘۔(۱۴) ۱۳:…اسی طرح امام ابن السنی vنے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘میں حضرت ابواُمامہq سے روایت نقل کی ہے کہ میں (جب بھی)فرض یانفل نماز کے بعد رسول اللہ a کے قریب ہواتومیں نے آپ aکو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’أَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَخَطَایَایَ کُلَّھَا، أَللّٰھُمَّ انْعَشْنِیْْ وَاجْبُرْنِیْ وَاھْدِنِیْ لِصَالِحِ الْأَعْمَالِ وَالْأَخْلَاقِ، إِنَّہٗ لَایَھْدِیْ لِصَالِحِھَا، وَلاَیَصْرِفُ سَیِّئَھَا إِلَّاأَنْتَ‘‘۔(۱۵) (مذکورہ بالا دعاکو امام طبرانی vنے ’’الصغیر ‘‘اور ’’الأوسط‘‘ میں حضرت ابوایوبq سے نقل فرمایا ہے، فرماتے ہیں کہ جب بھی میں نے نبی کریم a کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے آپ aسے یہ دعاسنی: ’’أَللّٰھُمَّ اغْفِرْ خَطَایَایَ وَذُنُوْبِیْ‘‘ ۔۔۔۔۔ اور مذکورہ دعاذکرفرمائی)۔ ۱۴:…امام ابن السنیv’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘میں اور امام طبرانی v ’’الأوسط‘‘ میں حضرت انسqسے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریمa نماز سے فارغ ہوجاتے (امام طبرانی v کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب نماز سے سلام پھیرتے) تو فرماتے: ’’أَللّٰھُمَّ اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِیْ آخِرَہٗ،وَخَیْرَ عَمَلِیْ خاَتِمَہٗ، وَخَیْرَ أَیَّامِیْ یَوْمَ أَلْقَاکَ‘‘۔(۱۶) میں کہتاہوں: مطلق نماز یافرض نمازکے بعد دعااور ذکر کے بارے میں جواحادیث مبارکہ آئی ہیں، وہ ان احادیث کے علاوہ کثیر تعداد اور وافر مقدار میں ہیں، جوہم نے ذکر کی ہیں۔ اور امام ابن الجزری v کی ’’الحصن الحصین‘‘، امام ابن السنیvکی’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ اور امام سیوطیvکی ’’الکلم الطیب‘‘میں مذکور ہیں،لیکن میں نے اسی مقدار پر اکتفا کیا اوریہ عمل کرنے والے مومن کے لیے کافی ہے۔ مصادر ومراجع ۱:…سنن الترمذی،۵/۱۸۸ ۔ سنن النسائی،ص:۱۸۲-۱۸۷ ۔ ۲:…أشعۃ اللمعات، ۴/۴۵۷۔ ۳:…التاریخ ا لأوسط،۳،۲/۸۰۔ ۴:…مسلم،۵/۸۹۔ ۵:…(بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء بعدالصلاۃ ۔ مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب استحباب الذکر بعدالصلوٰۃ وبیان صفتہ ۔ سنن نسائی، سنن ابوداؤد،کتاب الصلوٰۃ،باب مایقول الرجل إذا سلَّم ۔ ۶:…کتاب الاعتصام بخاری، باب مایکرہ من کثرۃ السؤال ومن تکلیف مالایعنیہ، ۱۳/۲۶۴۔ ۷:…بخاری،باب الذکر بعد الصلاۃ،۲/۳۲۵ ۔ ۸:…سنن مسلم،۵/۹۱-۹۲،کتاب المساجد،باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ۔ سنن أبوداؤد:۲/۱۱۰، کتاب الصلاۃ، باب مایقول الرجل إذا سلم۔ سنن نسائی:۳/۷۰،کتاب السہو،باب عدد التہلیل والذکر بعد التسلیم۔ ۹:…بخاری،۲/۳۲۴،کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ۔ مسلم،۵/۸۳، کتاب المساجد، باب الذکر بعد الصلاۃ۔ ۱۰:…بخاری،کتاب الجھاد،۶/۳۵۔۳۶،باب مایتعوذ من الجبن۔ ۱۱:… مصنف ابن أبی شیبہ،۱۰/۲۳۰،کتاب الدعائ، باب مایقال فی دبر الصلوات،۱/۲۹۶،کتاب الصلوات،باب مایقال بعد التشہد ممارخص فیہ۔ ۱۲:…أبوداؤد،۲/۱۱۵،کتاب الصلاۃ،باب الاستغفار۔ سنن النسائی۳/۵۳، کتاب السہو، باب نوع آخر من الدعائ۔ ۱۳:…مسند احمد،۴/۲۲۷۔ ۱۴:…ابن السنی،عمل الیوم واللیلۃ، ص:۱۲۱، رقم:۱۳۸۔ ۱۵:…ابن السنی،عمل الیوم واللیلۃ،ص:۱۰۴-۱۰۵۔ ۱۶:… ابن السنی،عمل الیوم واللیلۃ، ص:۱۰۸، رقم:۱۲۱، وص:۵۴،رقم:۱۱۹۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس