اس معاملہ کی اگر یہ صورت ہو کہ :
زید نے بکر کو ایک بکری خرید کر دی، تاکہ بڑھے (یعنی زیادہ ہو) اور اگر بچہ دے گی تو اس میں دونوں کا آدھا حصہ ہوگا، زید کے لیے ایسا کرنا شریعت کے اعتبار سے جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ اجارۂ فاسدہ ہے۔ اور اگر زید نے اس طرح کا معاملہ کر لیا ہے اور بچہ بھی پیدا ہوگیا ہے، تو وہ جانور اور بچہ بھی زید کی ملکیت میں شمار ہوں گے۔ اور زید پر بکر کو چارہ کی قیمت اور جو بکری پالنے کی عام طور پر اجرت ہوتی ہے اس کا دینا واجب ہوگا.
البتہ اس کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک جانور کی مناسب قیمت لگا کر نصف حصہ پرورش کرنے والے کے ہاتھ فروخت کردے، پھر اس کی قیمت معاف کردے، تو ایسی صورت میں جانور دونوں کے درمیان مشترک ہوجائے گا؛ اس لیے اس کی نسل وآمدنی بھی دونوں کے درمیان نصف نصف ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
نیز یہ بھی جائز ہے کہ آپ ان کے جانور پالیں اور اس کی اجرت ان سے لے لیں ۔ اور جو دودھ ہو وہ ان کو دیں ۔
"وفسد استئجار حائک لینسج له غزلاً بنصفه أو حماراً لیحمل علیه طعاماً بقفیز منه أو ثوراً لیطحن له براً بقفیز من دقیقه، هذا یسمّٰی قفیز الطحان، وقد نهي عنه، والأولیان بمعناه لاستئجاره ببعض عمله حتی لو أطلق ولم یضفه أو أفرزه له أو لاً جاز بالإجماع وهو الحیلۃ". (الدرالمنتقی علی مجمع الأنهر، الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/ ۵۳۹)
الفتاوى الهندیة، الإجارة، الباب الخامس عشر، الفصل الثالث: في قفیز الطحان وما هو في معناه، (۴/ ۴۴۴)
البحرالرائق، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، رشيدية (۸/ ۲۳)
"وعلی هذا إذا دفع البقرة إلی إنسان بالعلف لیکون الحادث بینهما نصفین، فما حدث فهو لصاحب البقرة، ولذلک الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فیما قام علیها، والحیلة في ذلک أن یبیع نصف البقرة من ذلک الرجل بثمن معلوم حتی تصیر البقرة وأجناسها مشترکة بینهما فیکون الحادث منها علی الشرکة". (الفتاوى الهندية،کتاب الشرکة، الباب الخامس في الشرکة الفاسدة، (۲/ ۳۳۵) فقط واللہ اعلم
۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة...
(4/۵۰4۔ کتاب الأجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه ط: رشیديه)
خلاصۃ الفتاوی ہے:
" رجل دفع بقرة إلى رجل بالعلف مناصفة وهي التي تسمى بالفارسية كاونيم سوو بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان فهذا فاسد والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة."
(خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب۔۔ومایتصل بها۔ط/قدیمی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ."
(6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ط/سعید)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."
(4/۵۰4۔ کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه ۔ط/رشیديه)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ."
(المبسوط للسرخسی:۱۵/6۔کتاب القسمة،۔ الناشر:دار المعرفة – بيروت ۔تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م)۔
البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں اس کی گنجائش ذکر کی ہے، لہذا اگر کہیں ابتلاءِ عام ہو تو ایسا معاملہ کرنے کی گنجائش ہو گی، لیکن بہرحال احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں