ماں نے کمال کر دکھایا

 ❤❤❤🫶🏻 ❤❤❤ ایک تابعی بزرگ تھے حضرت ابو عبدالرحمن فروخؒ صاحب تاریح بغداد نے لکھا ہے کہ اپنے بیوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ترکستان میں جہاد ہو رہاہے میں چلا جاٶ بیوی کہنے لگی میں حاملہ ہو فرمانے لگے تو اور تیرا حمل اللہ کے سپرد یہ تیس ہزار درہم ہے یہ تو رکھ لے اور مجھے اجازت دے میں اللہ کے راستے میں جاٶ فروحؒ نکلے ایک ماہ ایک سال دو سال تین سال کوئی خبر نہیں فروح کہاں گئے پیچھے  بیٹا پیدا ہوا پروان چڑھا جوان ہوا بیوی کی جوانی ڈھل رہی اپنے حاوند کے انتظار میں دیواروں کے ساتھ جوانی گزر رہی ہے سیاہی سفیدی میں بدل گئی رونق جھریوں میں بدل گئی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی وہ پھر بھی انتظار کرتی رہی کہ کبھی تو آئے گا تیس برس گزر گئے لیکن فروخ کا کوئی پتہ نہیں کبھی خبر آتی کہ زندہ ہے کبھی خبر آتی کہ شہید ہوگئے ایک رات لوگ عشاہ پڑھ کے جا چکے کہ ایک بڑے میاں ہتھیار سجائے ہوئے مدینے میں داحل ہوئے اپنے حیالات میں غلطاں وپیشماں پریشان و حیران یہ کون ہے یہ وہ جوان ہے جو جوانی میں نکلا تھا کالے داڑھی کے ساتھ آج لوٹا ہے سفید داڑھی کے ساتھ اس سوچ میں ہے کہ بیوی زندہ بھی ہے کہ مر گئی حاملہ تھی کی...

دو پیسے کی برکت

 

دو پیسے

 دو پیسے کی برکت

 مغل بادشاہ اور نگ زیب عالمگیر کے پاس ایک ضرورت مند آیا ۔کہنے لگا :”اے شہنشاہ عالم گیر ! میں نہایت غریب انسان ہوں ۔مجھے اپنی دوجواں سال بیٹیوں کی شادی کرنی ہے ۔آپ میری مدد فرمائیں ۔

 

“نونہالو ! شہنشاہ ہند نے جواب دیا :”اچھا تم کل آنا ۔ہم سے جو ہو سکے گا تمھاری مدد کریں گے۔“ ضرورت مند چلا گیا ۔اسی شب شہنشاہ اور نگزیب نے لباس بدلا ،بھیس بدلا اور نکل کھڑے ہوئے ۔راستے میں دیکھا کہ ایک مسافر سامان لیے کھڑا ہے اور کسی محنت کش کے انتظار میں ہے ۔

شہنشاہ ہند ایک محنت کش کے بھیس میں تھے ۔انھوں نے آگے بڑھ کر مسافر کا سامان اپنے سر اور پیٹھ پر لاد لیا اور جہاں مسافر نے کہا وہاں پہنچا دیا ۔ مزدوری دو پیسے ملی ۔اور نگزیب عالم گیر محل آئے ۔

نہایت اطمینان سے سو گئے ۔صبح ہوئی حاجت مند پہنچ گیا ۔

شہنشاہ ہند نے فرمایا :”یہ میری محنت کی کمائی ہے۔قطعی حلال ہے ۔دو پیسے یہ ہیں ۔یہ لے جاؤ ۔

اللہ تمھارامدد گار ہو ۔“نو نہا لو ! وہ حاجت مند تو بڑا حیران پریشان ہوا۔دو پیسے ! ان دوپیسوں سے دو بیٹیوں کی شادیاں کیسے کروں گا ۔

مایوس ہو کر چلا گیا ۔نونہالا ! اب سنو پھر کیا ہوا ۔وہ حاجت مند اپنے علاقے میں جا رہا تھا ۔راستے میں دیکھا کہ انار بِک رہے ہیں ۔اس نے دوپیسے کے انار لے لیے۔اس کے اپنے علاقے میں انار نہیں ہوتے تھے ۔اب وہ سفر کرتے کرتے اپنے علاقے میں پہنچ گیا ۔

دور ایک علاقے میں ایک رئیس رہتا تھا ۔اس کی بیٹی بیمار تھی ۔سارے علاج نا کام ہوئے ۔آخر ایک حکیم صاحب نے فرمایا :”اس مریضہ کو اب انار کے رس کی ضرورت ہے ۔اس سے آرام آئے گا ۔“نونہالو ! نار تو وہاں تھا نہیں ر ئیس نے منادی کرائی جو انار جلد فراہم کرے گا اسے انعام واکرام دیا جائے گا ۔

یہ بات اس حاجت مند تک پہنچی جس نے شہنشاہ اور نگز یب کی حلال کمائی دو پیسے کے انار خریدے تھے۔ وہ انار فوراََ ہاتھ میں حفاظت سے لے کر رئیس کے گھر پہنچ گیا ۔

انار پیش کردیے ۔جناب حکیم صاحب نے رس نکالا اور رئیس زادی کو پلا دیا ۔

اللہ کی شان انار کا رس تریاق ثابت ہوا ۔وہ اچھی ہو گئی ۔رئیس نے انار لانے والے سے کہا :”بولو کیا مانگتے ہو ؟حاجت مند نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی کا ذکر کیا ۔رئیس نے دونوں کی شادی کرادی اور انار والے کو بہت سی رقم دے دی ۔وہ تو مالا مال ہو گیا ! نو نہالو ! تم نے غور کیا! دو پیسوں میں کیسی برکت ہوئی ! نونہالو ! یا د رکھنا ،یہ برکت حلال کی کمائی کے دوپیسوں کی ہے ۔

شہنشاہ نے مسافر کا سامان ڈھو کر دو پیسے کمائے تھے ۔محنت کی تھی ۔حلال کمائی تھی ۔اسی لیے ایسی برکت ہوئی ۔

مفتی عبداللہ انور۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس